حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرحوم علامہ طباطبائیؒ (مصنفِ تفسیر المیزان) سورۂ بقرہ کی آیات 228 تا 242 کی تشریح میں “اسلام اور دیگر مذاہب و اقوام میں عورت کے حقوق، مقام اور سماجی حیثیت” پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اسلام نے عورت کے مسئلے میں انقلاب برپا کیا
دنیا بھر میں وہی عقائد رائج تھے جن کا ہم نے ذکر کیا؛ عورت کو اسی نظر سے دیکھا جاتا اور اس کے ساتھ وہی ظالمانہ سلوک کیا جاتا۔ اسے ذلت، کمزوری اور پستی کے شکنجے میں جکڑ دیا گیا تھا، یہاں تک کہ کمزوری اس کی فطرتِ ثانیہ بن گئی۔ عورت اسی احساسِ حقارت میں پیدا ہوتی، اسی میں جیتی اور اسی میں مرتی تھی۔ یہاں تک کہ لفظ "عورت" خود عورتوں کے نزدیک بھی کمزوری اور حقارت کا مترادف بن گیا تھا، حالانکہ ان الفاظ کے معنی الگ تھے۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ کس طرح مسلسل تلقین اور برین واشنگ سے انسانی سوچ الٹی ہو جاتی ہے۔
اگر آپ مختلف قوموں کی تہذیبوں کا مطالعہ کریں تو کوئی بھی قوم ایسی نہ ملے گی—نہ وحشی اور نہ مہذب—جس میں عورت کی کمزوری اور پستی سے متعلق ضرب الامثال موجود نہ ہوں۔ ہر زبان اور ہر ادبی ذخیرے میں عورت کو کمزور، ڈرپوک، بے بس اور ذلت پسند سمجھ کر تشبیہیں دی جاتی ہیں۔
عرب کے ایک شاعر نے کہا:
و ما ادری و لیت اخال ادری
اقوم آل حصن ام نساء
"مجھے نہیں معلوم "کاش معلوم ہوتا" کہ آلِ حِصن مرد ہیں یا عورتیں!"
ایسی ہزاروں مثالیں ہر زبان میں مل جائیں گی۔
اسلام میں عورت کی شناخت
اسلام اعلان کرتا ہے کہ عورت بھی انسان ہے، اسی طرح انسان ہے جس طرح مرد انسان ہے۔ انسان کے وجود میں مرد اور عورت دونوں برابر شریک ہیں، دونوں اس کی تخلیق کا بنیادی حصہ ہیں۔ ان دونوں میں کوئی برتری نہیں سوائے تقویٰ کے۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
«یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَأُنْثَیٰ وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاکُمْ».
"اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا… اللہ کے نزدیک سب سے عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔"
قرآن وضاحت کرتا ہے کہ ہر انسان "خواہ مرد ہو یا عورت" اپنی پیدائش میں دونوں والدین کا یکساں حصہ رکھتا ہے۔ اور یہ کہ اولاد صرف “ماں کے بطن کا ظرف” نہیں ہے، نہ یہ کہ “بیٹے تو ہمارے بیٹوں کے بیٹے ہیں اور بیٹیاں تو غیروں کے خاندان کی ہوں گی!” بلکہ قرآن ہر انسان (بیٹا یا بیٹی) کو مرد و عورت دونوں کی برابر کی شراکت سے وجود پانے والا قرار دیتا ہے۔ یوں تمام انسان ایک جیسے ہیں اور کسی کے لیے کوئی غیر معمولی استحقاق ثابت نہیں ہوتا، سوائے تقویٰ کے۔
اسلام میں مرد و عورت کی تخلیق میں مساوات
قرآن ایک اور جگہ فرماتا ہے: «أَنِّی لَا أُضِیعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَیٰ ۖ بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ». "میں تم میں سے کسی مرد یا عورت کی محنت کو ضائع نہیں کرتا، تم سب ایک دوسرے سے ہو۔"
یعنی مرد اور عورت دونوں ایک ہی نوعِ انسانی سے ہیں۔ دونوں کی محنت، کوشش اور کردار اللہ کے نزدیک برابر اہمیت رکھتے ہیں۔ کوئی عمل کسی دوسرے کے کھاتے میں نہیں جاتا، جب تک انسان خود اپنی محنت ضائع نہ کر دے۔
قرآن بلند آواز میں اعلان کرتا ہے:«کُلُّ نَفسِۭ بِمَا کَسَبَتۡ رَهِینَةٌ»، "ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے"۔
یہ اُس جھوٹے تصور کی نفی ہے جو اسلام سے پہلے رائج تھا، یعنی: “عورت کے گناہ تو اسی کے ذمہ، مگر اس کا نیک عمل اور اس کی ذات کے فائدے مرد کے کھاتے میں جائیں گے!”
اسلام نے اس باطل اور ظالمانہ تصور کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔
( ماخذ: ترجمه تفسیر المیزان جلد ۲ صفحه ۴۰۷)
(جاری ہے…)









آپ کا تبصرہ